گاڑی بیچنے کے 10 اصول
پاک ویلز قائم کرنے کے متعدد مقاصد میں سے ایک مقصد یہ بھی تھا کہ گاڑی خریدتےاور بیچتے ہوۓ ڈیلر کا منافع شامل ہو جاتا ہے اس سے بچا جا سکے
ایک وقت تھا جب اکثر ڈیلر حضرات کمشن کے لئے کام کرتے تھے. یہ کمشن عموماً ایک سے دو فیصد تک ہوتا تھا، جو نہ خریدار کو گراں گزرتا تھا، اور نہ ہی مالک کو… پھر حالات بدلے، کچھ مہنگائی اور کچھ ہوس ، لیکن ہوا یہ کہ کچھ ڈیلر حضرات نے دونوں جانب سے چھری تیز کر لی. میں آپکو سمجھاتا ہوں کیسے
فرض کیجئے آپ نے ایک 2005 کی لانسر بیچنی ہے. آپ کار مارکیٹ میں جاتے ہیں، ادھر ڈیلر آپ کو چوری کا ریٹ لگایں گے…آپ کو یقین دلایں گے کہ اس سے گھٹیا گاڑی آج تک بنی ہی نہیں .. مارکیٹ میں اسے کوئی نہیں خریدتا ، اس کے پارٹس نہیں ملتے..اس کو خریدا ہی کیوں آپ نے؟ مختصر یہ کہ یہ ردی کوڑ کباڑ ہے، لیکن کیوں کہ آپ شریف آدمی لگتے ہیں، اس لئے آپ کو اس کے 5 لاکھ دے دیتے ہیں. آپ دلبرداشتہ ہو کہ اگلے ڈیلر کے پاس جاتے ہیں تو وہ اس سے بھی کم ریٹ دیتا ہے .. مرتے کیا نہ کرتے آپ با دل نخواستہ پہلے والے کو ہی لاکھ کی بیچ دیتے ہیں. اب اگر کہیں آپ مارکیٹ میں 2005 کی لانسر لینے جایں ، اور کسی ڈیلر کے پاس وہ 5 لاکھ میں خریدی ہوئی کھڑی ہو گی تو وہ ایکدم سے پاکستان کی سب سے بہترین گاڑی بن جائے گی. پارٹس کا مسلہ بھی کوئی نہیں ہو گا، اور اس کی مارکیٹ نہ بننے کی وجہہ پاکستانی عوام کی جہالت کو قرار دیا جائے گا…ورنہ کونسیکرولا اور کونسی سویک اس کا مقابلہ کر سکتی ہے؟ آپ جب لینے کو تیار ہو جآیں گے تو بتایا جائے گا کہ ویسے تو9 لاکھ کی ہے، لیکن چونکے آپ شریف آدمی لگتے ہیں، اس لئے آپکو8 لاکھ کی دے دیں گے
جیسا کہ اوپر ذکر ہوا، پاک وہیلز کا ایک مقصد اس2.5 -3 لاکھ کے فاصلے کو کم کرنا بھی تھا. بیچنے والا اپنی گاڑی کا اشتہار لگاتا، مناسب قیمت مانگتا، خریدنے والا اس سے رابطہ کرتا، دونو کسی تیسرے کو بلاوجہ کا منافع دیے بغیر ایک درمیانی قیمت پہ ڈیل کر لیتے. لیکن پھر کہیں ایسا ہوا کہ بیچنے والوں نے زیادہ پیسے مانگنا شروع کر دے، اور خریدنے والوں نے چوری کا مال سمجھ کے آفر دینا شروع کر دیں .. اس کا نقصان یہ ہوا کہ بیچنے اور خریدنے والے دونو کو دوبارہ سے ڈیلر پہ انحصار کرنا پڑ گیا
یہاں یہ چیز یاد رہے کہ سب ڈیلر برے نہیں..کچھ تو واقعی ایسے ہیں کہ ان سے اچھی دوستیاں ہو جاتی ہیں. کچھ گندی مچھلیاں بھی ہیں
آج ہم آپکو بتایں گے کہ گاڑی ببیچتے وقت کونسی غلطیاں ہم سے عام طور پہ سرزد ہوتی ہیں جن کی وجہہ سے ہماری گاڑی پاک وہیلز پہ بکنے میں دیر لگا سکتی ہے
١. تفصیلات کی کمی
یہ سب سے پہلی، اور سب سے عام غلطی ہے جو اکثر لوگ کرتے ہیں. گاڑی کا نام لکھا، قیمت لکھی، اور بس. نہ ماڈل ، نہ رجسٹریشن کا شہر، نہ کتنا چلی ہی، نہ عمومی حالت..ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے بہت جلدی میں ہوں، اس سے اپکا غیر سنجیدہ پن ظاہر ہوتا ہے.. ایسے اشتہار لوگ اکثر کھولتے ہی بند کر دیتے ہیں
٢. بغیر تصاویر کے اشتہار
پرانے زمانوں میں کہتے تھے ‘جو دکھتا ہے، وہ بکتا ہے ‘ – اسی طرح اگر آپکی گاڑی کے اشتہار میں تصاویر نہیں ہیں، تو اکثر لوگ اگلا اشتہار کھول لیں گے جس میں درجن تصاویر دکھائی ہوتی ہیں. نہ صرف اس سے خریدنے والے کو فیصلہ کرنے میں آسانی ہوتی ہے، اسے یہ یقین بھی ہو جاتا ہے کہ آپ کچھ چھپا نہیں رہے، اور اس سے لاشعوری طور پہ اعتماد بڑھتا ہے
٣. فون نمبر کا نہ ہونا
حالانکہ کمنٹ کر کہ بھی آپ سے رابطہ کیا جا سکتا ہے، لیکن جو صاحب گاڑی ڈھونڈ رہے ہیں، وہ اپنا فون اٹھایں گے، اپکا نمبر ملایں گے، اور آپ سے ملاقات کا وقت اور جگہ مقرر کر کہ گاڑی دیکھ لیں گے. اگر آپکا نمبر موجود نہیں تو وہ اس گاڑی والے کو فون کر لیں گے جس کا نمبر اشتہار میں موجود ہے
٤. قیمت بڑھا چڑھا کہ لکھنا
یہ سب سے بڑی غلطی ہے جو آپ کر سکتے ہیں. گاڑیوں کی قیمتیں ایک خاص حد کے اندر رہتے ہوۓ اپر نیچے ہوتی ہیں. اچھی گاڑی کچھ اوپر نکل جاتی ہے، بری گاڑی تھوڑا نیچے. کچھ لوگ 15-20 فیصد بھاؤ تاؤ کی چھوٹ رکھ کے قیمت لگا دیتے ہیں..یہ بیوقوفی ہے. زیادہ سے زیادہ 5 سے 8 فیصد تک کا مارجن رکھیں، آپکی گاڑی جلدی بھی بکے گی اور فضول بحث سے بھی بچت ہو جاۓ گی
٥. مٹی کو سونا کر کے بیچنا
اکثر آپکوگاڑی کے اشتہار میں دروغ کوئی انتہا کی نظر آے گی…تعریفوں کے پل باندھے جایں گے، زمین آسمان کے قلابے ملاۓ جایں گے…مگر جب آپ جا کہ گاڑی کی حالت دیکھیں گے تو آپ کو غصہ بھی آے گا اور ہنسی بھی.. اگر آپ اپنی گاڑی کی غیر حقیقی عکاسی کرتے ہیں تو نہ صرف آپ اپنا وقت برباد کر رہے ہیں، بلکہ خریدار کا بھی. اس بات کا یقین رکھیے کہ زیادہ لوگوں کے چکّر لگنا کامیابی نہیں، کامیابی اپنی گاڑی بروقت اور مناسب قیمت پہ بیچ دینا ہے
٦. بیچوں یا نہ بیچوں؟
اکثر لوگ یہ سوچتے ہیں کہ ‘اگر اچھی قیمت مل گئی تو گاڑی بیچ دوں گا.” یہ صحیح فیصلہ نہیں ہے. پہلے اچھی طرح فیصلہ کر لیں کہ گاڑی بیچنی ہے یا نہیں. اگر آپکی گاڑی کا اشتہار زیادہ مدت تک لگا رہتا ہے تو عموماً لوگ یہ سوچتے ہیں کہ یقیناً گاڑی میں کوئی بڑی خرابی ہے جو اتنی دیرسے نہیں بک رہی. پھر آپ جب واقعا تًا بیچنا چاہیں گے تو آپکی گاڑی بندنام ہو چکی ہو گی
٧. کٹھورپن
بیچنے اور خریدنے کے کچھ آداب ہوتے ہیں. جونہی آپ گاڑی بیچنے کا اشتہار لگاتے ہیں، آپ ساتھ ہی تاجر بن جاتے ہیں. تجارت کا پہلا اصول ہے ملنساری اور خوش گفتاری. اگر آپ بدتمیزی سے لوگوں سے پیش آیں گے تو آپ سے کوئی گاڑی خریدنا تو درکنار ، بات تک نہیں کرنا چاہے گا
ثابت یہ ہوا کہ گاڑی بیچنا آسان کام نہیں. لیکن خیر ایسا کچھ مشکل بھی نہیں. پاک وہیلز لایا ہے آپکے لئے نیچے دیے گئے چند نکات جو کہ آپکی گاڑی بکنے میں مددگار ثابت ہوں گے
١. فیصلہ کیجیے کہ گاڑی بیچنی ہے کہ نہیں. اگر بیچنی ہے تو اشتہار لگایئے، ورنہ اسکا آپکو فائدے سے زیادہ نقصان ہو گا
٢. اپنی گاڑی کی اصل قیمت جانئے .. پاک وہیلزپہ اسی ماڈل اور کنڈیشن کی گاڑی دیکھ کے اس کے مطابق آپ قیمت سیٹ کر سکتے ہیں
٣. زیادہ سے زیادہ تفصیلات فراہم کرنے کی کوشش کیجئے .. اس طرح آپ اپنا وقت بھی بچائیں گے اور خریدار کا بھی
٤. ہر زاویے سے تصاویر لے کے پوسٹ کیجئے . کوشش کیجئے کہ تصویر دن کے وقت ہوں، اور گاڑی کی اصلی حالت کی عکاسی کرتی ہوں
٥. ایمانداری سے کام لیجئے .. جو جو کام ہو گئے ہیں، یا ہونے والے ہیں، بتا دیجئے. ایمانداری کا صلہ ہمیشہ اچھا ملتا ہے
٦. احترام کو ملحوظ خاطر رکھیے. کئی قسم کے لوگ آپکو مختلف اقسام کی آفر دیں گے، جذباتی ہونے سے کوئی فائدہ نہیں. بس آرام سے کہ دیجئے کہ آپ کے پاس بہتر افر ہے
٧. اپنا فون چالو رکھیے، خریدار عموماً ایک دفع فون کرتے ہیں. نہ ملے تو اگلی گاڑی دیکھنے لگتے ہیں
٨. فون پہ بات کرنے سے اندازہ لگانے کی کوشش کیجئیے کہ خریدار سنجیدہ ہے یا چسکا پارٹی. خریدار کو لمبی امیدیں نہ دلایے جیسا کہ “آ جائیں، ریٹ مناسب کر لیں گے” کوشش کر کے اسے فائنل قیمت کے قریب قریب قیمت بتا دیں تا کہ اگر اسے کوئی غلط فہمی ہے تو وہ دور ہو جائے
٩. احتیاط سے مصروف جگہ پہ ملاقات رکھیں، اور اکیلے ٹیسٹ ڈرائیو کے لئے کسی کو گاڑی لے جانے نہ دیں
١٠. ہر قسم کے لین دین کا تحریری ثبوت اپنے پاس رکھیں. اوپن لیٹر پہ گاڑی کسی کو نہ دیں. خدا نخواستہ کل کلاں کسی واردات میں استمعال ہو سکتی ہے اور آپ کے لئے پریشانی کا باعث بن سکتی ہے