شیورلیٹ گاڑیوں کے عروج و زوال کی داستان؛ کیا دوبارہ پاکستان آمد ممکن ہے؟
نیکسز آٹوز اور شیورلیٹ (Chevrolet) گاڑیوں سے متعلق پاکستان میں بہت کم بات کی جاتی ہے۔ گزشتہ دہائی میں متعدد اچھی گاڑیاں متعارف کروانے کے باوجود وہ حکومت کی متنازعہ پالیسیوں کا شکار ہوئے کہ جن کی تیاری ایسے لوگوں کے ہاتھوں سے ہوئی جو ‘بگ تھری’ کا تحفظ چاہتے تھے۔ اس کے نتیجے میں نیکسز، نسان، دیوان (ہیونڈائی / کِیا) اور آدم موٹرز کو میدان چھوڑ کر جانا پڑا اور پیچھے صرف تین جاپانی کار ساز ادارے سوزوکی، ٹویوٹا اور ہونڈا باقی رہ گئے۔
نیکسز آٹو موٹیو پرائیوٹ لمیٹڈ پاکستان میں جنرل موٹرز کی برانڈ شیورلیٹ گاڑیوں کی درآمد اور تیاری کا کام کرتی تھی۔ ابتداء میں انہوں نے 1600 سی سی اوپٹرا (Optra) اور 800 سی سی شیورلیٹ ایکسکلوسیو (جسے بعد میں ڈائیوو (Daewoo) مٹیز کا نام دیا گیا) سے فروخت شروع کی۔ تاہم بعد ازاں 2005 میں یہی گاڑی 1000 سی سی انجن کے ساتھ شیورلیٹ جوائے (Chevrolet Joy) کے نام سے پاکستان ہی میں تیار کی جانے لگی۔ نیکسز نے گندھارا نسان سے پورٹ قاسم پر موجود کارخانہ حاصل کیا جو اس وقت استعمال نہیں کیا جارہا تھا۔ دونوں اداروں کے باہمی معاہدے کے بعد نیکسز نے گاڑیوں کی مقامی سطح پر تیاری شروع کردی۔
یہ بھی پڑھیں: نئی آٹو پالیسی پر جاپانی اور یورپی اداروں کے درمیان رسہ کشی
اس منصوبے پر تقریباً ڈیڑھ کروڑ امریکی ڈالر سرمایہ کاری کی گئی جبکہ عالمی سطح پر دستیاب جنرل موٹرز کی دیگر گاڑیوں کو بھی پاکستان میں متعارف کروانے کا منصوبہ بنایا گیا تھا۔ جوائے اور اوپٹرا کے علاوہ جنرل موٹرز کی دیگر گاڑیاں بشمول اسپارک، ایویو اور کروز بھی یہاں پیش کی گئیں۔
شیورلیٹ کی پیش کی جانے والی گاڑیاں غیر معیار نہیں تھیں لیکن بہرحال انہیں بہت اعلی پائے کا بھی نہیں کہا جاسکتا۔ یہ سرفہرست گاڑیوںمیں کبھی بھی شامل نہ ہوسکیں اوران کی فروخت مسلسل کمی کا شکار رہی۔ شیورلیٹ کی سب سے زیادہ فروخت ہونے والی 1000 سی سی جوائے بھی دیگر مدمقابل بشمول سوزوکی کلٹس، آلتو اور ہیونڈائی سانترو (Hyundai Santro) سے کافی پیچھے رہی۔ اس کی راہ میں دوسری بڑی رکاوٹ درآمد شدہ گاڑیوں کی صورت میں آئی جن میں ٹویوٹا وِٹز سب سے نمایاں ہے۔ اس کی بنیاد ی وجہ وِٹز کی بڑھتی ہوئی پسندیدگی کے علاوہ ملک میں تیار شدہ شیورلیٹ جوائے کی اضافی قیمت بھی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: درآمد شدہ جاپانی گاڑیوں کی آکشن شیٹ کی آن لائن تصدیق کا طریقہ
نیکسز کے ساتھ ایک اور بڑا مسئلہ یہ تھا کہ سوائے شیورلیٹ جوائے کے انہیں تمام گاڑیاں درآمد کرنا پڑتی تھیں۔ لہٰذا ان پر درآمدی ڈیوٹیز بھی دینا پڑتی تھی جس کی وجہ سے گاڑیوں کی قیمت میں اضافہ ہوجاتا تھا اور یوں وہ صارفین کی دلچسپی کھودیتی تھیں۔ ان کی 800 سی سی اسپارک ہی کی مثال لے لیں کہ جس کی قیمت مقامی تیار شدہ 1000 سی سی جوائے سے بھی زیادہ تھی۔ اسی طرح 1400 سی سی ایویو کی قیمت بھی اپنے مدمقابل مشہور گاڑیوں ہونڈا سِٹی اور ٹویوٹا کرولا XLi سے بھی کہیں زیادہ تھی۔ اس کے علاوہ شیورلیٹ کروز کی قیمت ہونڈا سِوک کے بہترین ماڈل VTi اوریئل سے بھی زیادہ تھی۔
اس تمام تر قضیے پر نیکسز کا یہ موقف رہا ہے:
آدم موٹرز اور کئی دیگر نئے اداروں کی آمد کے باوجود حکومت کی جانب سے انہیں کوئی مراعات نہیں دی گئیں۔ مقامی سطح پر تیاری کے لیے غیر حقیقی مطالبے اور جزوی تیار شدہ گاڑیوں کی درآمد پر پابندی کا اصل مقصد تین جاپانی کار ساز اداروں کی حمایت کے مترادف ہے۔ ان حالات کی وجہ سے گاڑیوں کی فروخت گرتی رہی جس کی وجہ سے کارخانہ بند کرنا پڑا۔ علاوہ ازیں لوگوں نے درآمد شدہ گاڑیاں بھی خریدنا بند کردیں۔ بالآخر نسان (Nissan) کو کارخانے کے واجبات کی ادائیگی، شیورلیٹ جوائے کے پرزوں کی تیاری گندھارا نسان کے حوالے کر کے سال 2010 میں نیکسز کو مرحلہ وار ختم کردیا گیا۔
اپنی شیورلیٹ یا کسی بھی دوسری گاڑی کا بیمہ کروانے کے لیے یہاں کلک کریں
حال ہی میں خبریں سامنے آئی ہیں کہ جنرل موٹرز نے حکومت عہدیداران سے ملاقات میں پاکستان واپسی سے متعلق گفتگو کی ہے۔ پاکستان کی نئی آٹو پالیسی، جس کا شدت سے انتظار کیا جارہا ہے، میں ایسے اداروں کے لیے خصوصی مراعات رکھی گئی ہیں جو اپنا کارخانہ دوبارہ کھولنے اور گاڑیوں کی تیاری وفروخت میں دلچسپی رکھتی ہیں۔ البتہ اس بار ہمیں پوری امید ہے کہ جنرل وٹرز مارکیٹنگ کے لیے بہترین حکمت عملی ترتیب دینے کے ساتھ مارکیٹ کی مانگ کو دیکھتے ہوئے اچھی گاڑیوں کے ساتھ میدان میں اترے گی۔ جنرل موٹرز کی چھتری تلے کئی ایک قابل ذکر برانڈز آتی ہیں کہ جو ہماری مقامی مارکیٹ میں مقبولیت کی اہل ہیں۔ اگر انہیں یہاں اچھے طریقے سے متعارف کروایا جائے اور قیمت بھی مناسب رکھی جائے تو کوئی بعید نہیں کہ وہ پہلے سے موجود کار ساز اداروں کی گاڑیوں کا زبردست مقابلہ کریں۔ پاکستان میں گاڑیوں کا شوق رکھنے والوں کے لیے یہاں چند گاڑیوں کی بات کرلیتے ہیں۔
شیورلیٹ اسپارک (قیمت: 6.48 لاکھ روپے سے 8.39 لاکھ روپے)
نئی شیورلیٹ اسپارک (جسے بھارت میں شیورلیٹ بیٹ کہا جاتا ہے) 1200 سی سی انجن کے ساتھ پیش کی جاتی ہے۔ 5 اسپیڈ مینوئل ٹراسمیشن سے منسلک یہ انجن 72 بریک ہارس پاور فراہم کرتا ہے۔ بھارت میں یہ گاڑی ٹربو ڈیزل انجن کے ساتھ بھی پیش کی جاتی ہے۔ آٹومویٹو ریسرچ ایسوسی ایشن آف انڈیا کے مطابق اس کی مسافت (مائلیج) 24 کلومیٹر فی لیٹر ہے۔ چونکہ بھارت میں شیورلیٹ بیٹ کی قیمت تقریباً 6.5 لاکھ بھارتی روپے کے برابر ہے، ہم امید کرسکتے ہیں کہ پاکسان میں تیار ہونے والی شیورلیٹ اسپارک کی قیمت 8 لاکھ روپے سے کم ہوگی جو اس طرز کی گاڑی کی اچھی قیمت کہی جاسکتی ہے۔
شیورلیٹ سایل (قیمت: 56,800 یوآن – 79,900 یوآن)
تیسری جنریشن کی شیورلی سایل سیڈان اور ہیچ بیک دونوں ہی انداز میں پیش کی جاتی ہے۔ اس میں 1200 سی سی S-TEC II اور 1400 سی سی S-TEC III انجن پیش کیے جاتے ہیں۔ 1200 سی سی انجن کی کارکردگی بہت اچھی ہے اور یہ ایک کلومیٹر میں 17 کلومیٹر سفر کرسکتی ہے۔ شیورلیٹ سایل پہلی مسافر گاڑی تھی کہ جسے چین میں مشترکہ ادارے نے تیار کیا۔ سایل مختلف ممالک دستیاب ہے جن میں چلی، پیرو، کولمبیا، ایکواڈور، شمالی افریقہ کے ترقی پذیر ممالک، مشرق وسطی اور بھارت شامل ہیں۔بھارت میں دوسری جنریشن کی سایل ہیچ بیک 4.75 لاکھ سے 5.60 لاکھ بھارتی روپے (7.1لاکھ تا 8.46 لاکھ پاکستانی روپے) میں دستیاب ہے۔ اسے دیکھتے ہوئے توقع کی جاسکتی ہے کہ مقامی تیار شدہ سایل 9 لاکھ روپے سے کم میں پیش کی جائے تو خریداروں کو اپنی طرف متوجہ کرسکتی ہے۔
شیورلیٹ ایویو (قیمت: 73,900 یوآن – 1,09,900 یوآن)
نئی ایویو شیورلیٹ سایل سے بہتر شمار کی جاتی ہے۔ یہ دنیا بھر میں متعدد انجن کے ساتھ دستیاب ہے۔ چند سال قبل ہمارے مارکیٹ میں پیش کی جانے والی گاڑیوں سے کہیں زیادہ بہتر انداز نئی ایوو کا ہے۔ مقامی سطح پر تیار ہونے والی 1400 سی سی ایوو سیڈان کی قیمت 12 لاکھ روپے رکھی جائے تو یہ پاکستان میں کامیاب ہوسکتی ہے۔
شیورلیٹ کروز (قیمت: 89,900 یوآن – 169,900 یوآن)
نئی شیورلیٹ کروز بھی کئی انجنز کے ساتھ پیش کی جاتی ہے۔ پاکستان میں 1600 سی سی یا زائد انجن کے ساتھ اسے پیش کیا جائے تو بلاشبہ یہ آلٹِس اور اوریئل کا مقابلہ کرسکتی ہے۔ اگر نئی کروز کی قیمت 18 لاکھ روپے رکھی گئی تو یہ اپنی ہم پلہ گاڑیوں کو مشکل میں ڈال سکتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: استعمال شدہ گاڑیوں کی خرید و فروخت کا منفرد تجربہ اور چند دلچسپ واقعات
شیورلیٹ کی موجودہ گاڑیاں ان سے کہیں زیادہ اچھی ہیں جو پچھلی دہائی میں یہاں دیکھی جاتی تھیں۔ تاہم کار ساز اداروں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ وہ پرانی گاڑیوں کو یہاں لا کر من مانی قیمت پر بیچنا چاہیں گے تو انہیں منہ کی کھانی پڑے گی۔ اگر پاک سوزوکی یہ کام کر رہا ہے تو ضروری نہیں کہ آپ بھی اسی فارمولے کو اپنائیں اور کامیابی کے خواب دیکھیں۔ پروٹون نے بھی یہی غلطی کی، دیوان نے سانترو کے ذریعے تھوڑی بہت تحریک دکھائی جبکہ قراقرم موٹرز نے نئی چیری QQ پیش کرنےکی زحمت نہ کی۔ اس بار ہم امید کرتے ہیں کہ جنرل موٹرز نئی شیورلیٹ گاڑیوں کے ساتھ قدم رکھے گی۔
یہ سوشل میڈیا کا دور ہے؛ یہاں معلومات تک رسائی اب صرف چند لمحوں کا کام ہے اور خریدار بھی پہلے سے زیادہ علم رکھتے ہیں۔ اگر ایک کار ساز ادارہ مارکیٹ کی طلب کو سمجھتے ہوئے معیاری اور مناسب قیمت گاڑیاں پیش کرتا ہے تو انہیں کامیابی سے کوئی نہیں روک سکتا۔ خریداروں کی ایک بڑی تعداد یہاں موجود گاڑیوں کے محدود ماڈلز سے تنگ آچکی ہے۔ لوگ بہت شدت سے تبدیلی دیکھنا چاہتے ہیں اور ہر اس ادارے بشمول فیات، ووکس ویگن، رینالٹ، جنرل موٹرز وغیرہ کا خیر مقدم کریں گے کہ جو جدید گاڑیوں کے ساتھ ان کی تشفی کا سامان لے کر آئے۔
دنیا کے دیگر ممالک میں رہنے والی لوگوں کی طرح پاکستانی عوام کو بھی نئی، جدید، بہتر اور محفوظ گاڑیاں رکھنے کا پورا حق حاصل ہے۔ تاہم اس کا بہت زیادہ انحصار طویل عرصے تک تیاری کے مراحل سے گزرنے والی پاکستان کی نئی آٹو پالیسی پر ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ مستقبل میں جو بھی صورتحال ہوگی اس سے گاڑیوں کے شعبے، پاکستانی قوم اور ملکی معیشت کو فائدہ ہوگا۔