نئی آٹو پالیسی میں شامل 5 نکات جو انقلابی تبدیلیاں لاسکتے ہیں
تقریباً 3 سال کے طویل اور صبر آزما انتظار کے بعد بالآخر اقتصادی رابطہ کمیٹی نے آئندہ پانچ سالوں (2016 تا 2021) کے لیے نئی آٹو پالیسی کی منظوری دے ہی دی۔ نئی منظور شدہ آٹو پالیسی میں غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لیے مواقع پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ صارفین کے لیے کم قیمت اور معیاری گاڑیوں کی فراہمی ممکن بنانے کے لیے مسابقت کی فضا قائم کرنے کی بھی کوشش کی گئی ہے۔ اس ضمن میں نئے کار ساز اداروں کی ملک میں سرمایہ کاری سے جہاں شعبے کی صورتحال میں مثبت تبدیلیاں رونما ہوں گی وہیں ملک میں ملازمتوں کے نئے مواقع بھی پیدا ہوں گے۔
ذیل میں نئی آٹو پالیسی کا خلاصہ پانچ نکات میں بیان کیا گیا ہے جسے پڑھ کر آپ اس کی افادیت اور مستقبل میں ہونے والی تبدیلیوں کا بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں:
1) آئندہ تین سالوں تک نئے کار ساز اداروں کو خصوصی مراعات حاصل ہوں گی جس کے تحت وہ کارخانے قائم کرنے کے لیے درکار مشینری بغیر کسی ڈیوٹی کے درآمد کرسکیں گے۔ یوں وہ صارفین کے لیے کم قیمت گاڑیاں تیار کرنے کے قابل ہوں گے جس سے گاڑیاں خریدنے والوں کو فائدہ پہنچے گا۔
2) موجودہ کار ساز اداروں ٹویوٹا، سوزوکی اور ہونڈا کی پیش کردہ گاڑیوں میں بہت سی سہولیات شامل نہیں۔ نئے کار ساز اداروں کی ماحولیاتی آلودگی سے بچاؤ کے معیارات پر تیار کی گئی گاڑیوں میں بنیادی حفاظتی سہولیات جیسا کہ ایئربیگز، اینٹی-لاک بریکنگ وغیرہ شامل ہوں گی جس سے خریداروں کو محفوظ اور ماحول دوست سفر نصیب ہوسکے گا۔
3) نئی آٹو پالیسی میں مکمل تیار شدہ گاڑیاں درآمد کرنے پر عائد ڈیوٹی کو 32.5 فیصد سے کم کر کے 30 فیصد کردیا گیا ہے جس سے گاڑی کی قیمت بھی کم ہوجائے گی۔ اس کے علاوہ غیر-مقامی پارٹس 10 فیصد اور مقامی پارٹس 25 فیصد ڈیوٹی پر درآمد کیے جاسکیں گے۔ 800cc یا اس سے کم انجن والی گاڑیوں کے پرزوں پر بھی صرف 10 فیصد درآمدی ڈیوٹی عائد ہوگی۔ یہ رعایت آئندہ چار سالوں تک فراہم کی جاتی رہے گی۔
4) نئے اداروں کی جانب سے قائم کیے جانے والے کارخانوں اور دفاتر میں افرادی قوت بھی درکار ہوگی۔ اس لیے علاقائی سطح پر نئی ملازمتوں کے مواقع سامنے آنا بھی یقینی ہے۔ یوں پاکستان میں کام کرنے والے ہنرمند افراد کو اپنے تجربے اور آمدنی میں اضافے کے ساتھ غیر ملکی اداروں میں کام کرنے کا موقع مل سکے گا۔
5) گاڑیوں کے شعبے میں ووکس ویگن، رینالٹ (رینو)، فیات جیسے اداروں کی شمولیت سے جدید ٹیکنالوجی کی آمد ممکن ہوسکے گی۔
ان تمام مراعات کا فائدہ چند عوامل پر منحصر ہے جس میں سب سے اہم پالیسی کا تسلسل ہے۔ اگر مستقبل قریب میں اس آٹو پالیسی کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی گئی تو اس سے ممکنہ سرمایہ کاروں کے اعتماد اور عوام کی امیدوں کو ٹھیس پہنچے گی۔ ماضی میں دیکھا گیا ہے کہ جب جب عوامی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے پالیسیاں بنائی گئیں تب تب کاروباری اداروں نے انہیں لابنگ کے ذریعے تبدیل کروالیا۔
یہ بھی پڑھیں: FAW B30 – کرولا آلٹِس اور سِٹی ایسپائر کو ٹکر دے سکتی ہے!
اب وقت آگیا ہے کہ پڑوسی ملک بھارت ، جہاں 80 سے زائد کار ساز ادارے کام کر رہے ہیں، کی طرز پر ہم بھی اپنی گاڑیوں کے شعبے کو وسعت اور ترقی کی راہ پر گامزن کریں۔ پاکستان اس وقت تین جاپانی اداروں کی اجارہ داری کی لپیٹ میں ہے جس سے جلد از جلد چھٹکارا ناگزیر ہوچکا ہے۔ کچھ ایسی ہی صورتحال ایران کو بھی درپیش ہے جو ایران خودرو، پارس خودرو اور سائپین کی اجارہ داری کا شکار ہے۔ البتہ ایران نے بھارت سے سبق حاصل کرتے ہوئے درآمد ڈیوٹی کو 10 فیصد تک کم کردیا ہے۔
گاڑیوں کی فروخت میں مسلسل اضافے سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ لوگ نئی گاڑیاں خریدنا چاہتے ہیں اور جو بھی ادارہ سب سے پہلے یہاں سرمایہ کاری کرے گا وہی سب سے زیادہ فوائد سمیٹنے میں کامیاب بھی ہوگا۔اس صورتحال کا سب سے زیادہ فائدہ کِیا موٹرز، ہیونڈائی اور نسان کو ہوسکتا ہے۔ اس کے علاوہ یہاں کام کرنے والے نستباً چھوٹے ادارے مثلاً FAW بھی اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ یہ دیکھنا بھی باقی ہے کہ موجودہ کار ساز ادارے اس نئی آٹو پالیسی کے لاگو ہونے تک کیا حکمت عملی اپناتے ہیں۔