نئی آٹو پالیسی: جاپانی اور یورپی اداروں کے درمیان رسہ کشی کا آغاز
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستان میں گاڑیوں کا شعبہ تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔ ملک میں تیار ہونے والی گاڑیوں کی فروخت میں زبردست اضافے کے ساتھ ساتھ بیرون ملک سے جدید گاڑیاں بھی بڑی تعداد میں درآمد کی جا رہی ہیں۔اس کا اندازہ گذشتہ دو مالی سال کے تقابل سے بھی لگایا جاسکتا ہے۔ مالی سال 2014-15 میں مجموعی طور پر 151,134گاڑیاں فروخت ہوئی جبکہ اس سے پچھلے مالی سال 2013-14 میں یہ تعداد 118,102 تھی۔ گاڑیوں کی تیاری و فروخت کے اعداد و شمار فراہم کرنے والے ادارے پاکستان آٹوموٹیو مینوفیکچررز ایسوسی ایشن کے مطابق موجودہ مالی سال 2015-16 کی پہلی سہ ماہی (جولائی تا ستمبر) میں اب تک 44,372 ہوچکی ہیں جبکہ گذشتہ مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں یہ مجموعہ 27,630 تھا۔ رواں سال کے ابتدائی تین ماہ میں ٹویوٹا انڈس موٹرز نے 13,512 گاڑیاں فروخت کی ہیں جبکہ پچھلے سال یہ تعداد 8,546 رہی تھی۔ البتہ ہونڈا ایٹلس کی حالیہ کارکردگی قابل ذکر نہیں رہی۔ ذیل میں موجود ہونڈا سِوک اور ہونڈا سِٹی کے مجموعی اعداد و شمار سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جاپانی کار ساز ادارہ کس مقام پر کھڑا ہے۔
جولائی 2015: 2181 گاڑیاں
اگست2015: 2002 گاڑیاں
ستمبر 2015: 2001 گاڑیاں
اکتوبر 2015: 1875 گاڑیاں
اگر ہونڈا سِوک کے مقابلے میں ہونڈا سِٹی کی کارکردگی دیکھی جائے تو حیرت ہوتی ہے کہ نئی جنریشن کو پاکستان میں متعارف نہ کروائے جانے کے باوجود یہ برانڈ بہتر سے بہتر ہورہی ہے۔ اب دیکھنا ہے کہ ستمبر 2016 میں ہونڈا سِوک کی دسویں جنریشن پیش کی جائے گی تو وہ کیا اثرات مرتب کرتی ہے۔
دوسری طرف پنجاب سبز ٹیکسی اسکیم کی بدولت راوی اور بولان کی فروخت میں زبردست اضافے کے ساتھ پاک سوزوکی ریکارڈ توڑ فروخت کر رہی ہے۔ سوزوکی راوی کی فروخت گذشتہ مالی سال کے ابتدائی چار ماہ میں 3,910 تھی جو رواں مالی سال کے پہلے چار ماہ کے دوران 320 فیصد اضافے کے ساتھ 12,513 ہوچکی ہے۔جبکہ سوزوکی بولان کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہے کہ گذشتہ مالی سال کے ماہ جولائی تا اکتوبر فروخت 4,228 تھی وہ بڑھ کر 13,019 ہوچکی ہے۔ البتہ پاک سوزوکی زبردست تشہیری مہم کے باوجود ویگن آر کی فروخت میں نمایاں اضافہ نہیں کرپائی جس کا اندازہ نیچے موجود اعداد و شمار سے بھی لگایا جاسکتا ہے۔
اب بات کرتے ہیں موٹر سائیکل کی۔ یاماہا YBR کی آمد سے پاکستان میں موٹر سائیکل کے شعبے کو ایک نئی تحریک حاصل ہوئی۔ بلاشبہ یاماہا کی پاکستان واپسی کا دلیرانہ فیصلہ اس کے لیے بہت سودمند رہا اور آج موٹر سائیکل رکھنے والے ہر خاص و عام شخص کی خواہش یاماہا YBR کا حصول ہے۔ایٹلس ہونڈا نے بھی چند ہفتوں قبل 100ملین ڈالر سرمایہ کاری کا اعلان کیا ہے جس کا مقصد موجودہ کارخانے کو توسیع دے کر پیداوار کو دگنا کرنا ہے۔ یاد رہے کہ ہونڈا ایٹلس سالانہ 6 لاکھ موٹر سائیکلیں تیار کر رہا ہے اور نئی سرمایہ کاری کے بعد یہ تعداد 13 لاکھ تک پہنچ جائے گی۔ یہ علیحدہ بحث ہے کہ ہماری قسمت میں کوئی نئی بائیک لکھی ہوئی ہے یا وہی پرانی CD70 اور CG125 ہی سے دل بہلاتے رہیں گے۔
آئندہ ماہ یعنی دسمبر کے پہلے ہفتے میں نومبر 2015 کے اعداد و شمار جاری کیے جائیں گے اور ہمیں پوری امید ہے کہ نہ صرف مقامی تیار شدہ گاڑیوں بلکہ درآمد میں بھی گذشتہ سال کے مقابلے میں ترقی نظر آئے گی۔ غرض یہ کہ اس وقت ہمارے ملک میں گاڑیوں کا شعبہ بہتری کی جانب گامزن ہے اور ہماری دعا ہے کہ اس کا یہ سفر مزید تیز اور طویل ہو۔
پچھلے چند بلاگز میں ہم نے پاکستان کے تین بڑے کار ساز اداروں کے ارادوں سے متعلق آپ کو آگاہ کیا تھا کہ وہ آئندہ سال نئے برانڈز اور ماڈلز متعارف کروانے کی تیاری کر رہے ہیں۔ شاید کچھ لوگوں کے لیےکلٹس کو ختم کر کے سوزوکی سلیریو پیش کیے جانے کی خبر زیادہ دلچسپ ہو لیکن ہمیں تو ہونڈا HR-V تھائی کا شدت سے انتظار ہے۔ اس کے علاوہ ہونڈا سِوک بھی آگئی تو سمجھیں سونے پر سہاگہ ہوگا۔ ٹویوٹا انڈس موٹرز بھی وِٹز اور وایوس کی تیاری کے لیے بھاگ دوڑ میں مصروف ہے۔ اگر آپ بھی میری طرح گاڑیوں کے دیوانے ہیں تو ضرور ان حالات سے بہت خوش ہوں گے بلکہ یہ بھی خواہش رکھتے ہوں گے کہ دنیا کے دیگر معروف کار ساز ادارے بھی اپنی جدید اور دیدہ زیب برانڈز کے ساتھ پاکستان میں کاروبار کا آغاز کریں۔
ایک جگہ پڑھا تھا کہ پاکستان میں صرف 13 سے 14 فیصد آبادی کے پاس ذاتی گاڑی موجود ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان میں گاڑیاں تیار کرنے والے اداروں کے لیے کتنی گنجائش موجود ہے۔ ویسے بھی پاکستان میں گاڑیوں کی صنعت ابھی اپنے بچپن کے دور میں ہے اور اسے بڑا ہونے کے لیے کافی وقت اور محنت درکار ہے۔ اس وقت پاکستان میں سالانہ 2 لاکھ گاڑیاں تیار کی جا رہی ہیں جبکہ مارکیٹ میں گاڑیوں کی طلب اس سے کہیں زیادہ نظر آتی ہے۔
پاکستان میں گاڑیوں اور موٹر سائیکل کی انتہائی بڑی مارکیٹ کی موجودگی کو ہم سے پہلے بین الاقوامی اداروں نے محسوس کرلیا۔ یہی وجہ ہے کہ گاڑیوں کے معروف صنعتی ممالک کے نمائندگان حکومتی اداروں کے ساتھ ملاقات میں اس حوالے سے بات چیت کر رہے ہیں۔ ان مذاکرات کا اہم موضوع آئندہ سالوں کے لیے تیار ہونے والی پاکستان کی آٹو پالیسی ہے۔غیر ملکی نمائندگان کی کوشش ہے کہ وہ پاکستان میں گاڑیوں کے شعبے سے وابستہ اداروں کو خصوصی رعایت کے لیے رضامند کر سکیں جس سے ان ممالک کے کار ساز اداروں کو پاکستانی مارکیٹ تک باآسانی رسائی میسر آ سکے۔
چند ماہ قبل ہم نے سنا تھا کہ جرمن کار ساز ادارے ووکس ویگن کے چند نمائندوں نے سرمایہ کاری بورڈ کے عہدیداران سے ملاقات کی ہے جس میں ووکس ویگن گاڑیوں کو پاکستان میں متعارف کروانے سے متعلق بھی گفتگو ہوئی۔ تب سے ہم امید کر رہے تھے کہ ان مذاکرات کا جلد ہی کوئی نتیجہ آئے گا تاہم ووکس ویگن پر ڈیزل گیٹ اسکینڈل کا پہاڑ ٹوٹ پڑا اور ہم اپنی من پسند گاڑیوں کو پاکستان میں دیکھنے کی خواہش کو اندر ہی اندر دبا کر بیٹھ گئے۔
اس کے بعد ہمیں خبر ملی کہ گندھارا نسان موٹرز کی جانب سے ایک بار پھر پاکستان میں نسان گاڑیوں کی پیش کش سے متعلق سرگرمیاں جاری ہیں۔ آٹو پالیسی تیار کرنے والی خصوصی کمیٹی نے بھی پرانی گاڑیوں کو دوبارہ متعارف کروانے سے متعلق بھی خصوصی بات چیت کی تھی۔ یوں ہمیں امید ہوچلی کہ نسان اور اس کے ساتھی ادارے رینالٹ اور ڈاٹسن کی گاڑیاں بھی پاکستان میں نظر آئیں گی۔ اس سے قبل رینالٹ کی پاکستان میں گاڑیاں فروخت کرنے میں دلچسپی سے متعلق بھی خبریں سرگرم تھیں جو کہ بہرحال نسان کے مقامی شراکت دار گندھارا موٹرز ہی کے ذریعے ممکن نظر آتا ہے۔ انہوں نے بھی آٹو پالیسی بنانے والے افراد سے ملاقات کی اور انہیں اپنے منصوبوں سے متعلق آگاہ کیا۔ یاد رہے کہ ماضی میں کاروبار کرنے والے کار ساز اداروں کو رعایت دینے کا فیصلہ پہلے ہی کیا جا چکا تھا جس سے نہ صرف نسان کو بلکہ کیا موٹرز اور ہونڈائی کے پاکستانی شراکت دار دیوان فاروق موٹرز کو بھی فائدہ پہنچنے کی توقع ہے۔
مشرقی یورپ کے ملک بیلا روس کی جانب سے گاڑیوں کے پرزے تیار کرنے کے شعبے میں سرمایہ کاری میں دلچسپی کا بھی اظہار کیا گیا تھا۔ اس مقصد کے لیے بیلاروسی وفد نے وزیر برائے صنعت و پیداوار غلام مرتضی خان جتوئی سے بھی ملاقات کی اور انہیں بتایا کہ بیلاروس کے کئی ایک سرمایہ کار گاڑیوں کے پرزے تیار کرنے کے کارخانوں میں سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں۔
پیش رفت یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ روسی وفد نے بھی اسلام آباد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری سے ملاقات میں مسافر گاڑیوں کے شعبے میں سرمایہ کاری کے لیے دلچسپی ظاہر کی ہے۔ انہوں نے ملک میں گاڑیوں کی تیاری کے علاوہ توانائی کے شعبے میں بھی بڑی سرمایہ کاری سے متعلق گفتگو کی ہے۔ اگر روسی ادارے یہاں کوئی کارخانہ لگانا چاہتے ہیں جس میں پاکستانی مزدوروں کے ذریعے گاڑیاں تیار کی جائیں گی اور وہ ہر لحاظ سے سستی ہوں گی تو بھئی بہتر ہے کہ آپ پرانے زمانے کی لاڈا ریوا جیسی گاڑیاں ہی فروخت کرنا شروع کردیں۔ خیر، اس حوالے سے میں نے ایک علیحدہ بلاگ لکھا ہے، آپ چاہیں تو اس تفصیلی بلاگ کا ضرور مطالعہ کریں۔
مزید برآں جاپان کے نائب وزیر برائے معیشت،تجارت و صنعت تونیو کیتامورا نے بھی پاکستانی حکام سے ملاقات کی اور آنے والے آٹو پالیسی سے متعلق بات چیت میں حصہ لیا۔ اس کے علاوہ جرمن اور فرانسیسی وفود نے بھی مالیاتی امور سے متعلق وزرا سے ملاقات کی اور آٹو پالیسی میں نئی گاڑیاں پیش کرنے سے متعلق موضوعات پر گفتگو کی۔ اگر ان تمام ملاقاتوں کو دیکھتے ہوئے مختصر تبصرہ کیا جائے تو یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ یورپی ممالک نئے کار ساز اداروں کے لیے رعایت چاہتے ہیں جبکہ جاپان اس کی مخالفت کرتے ہوئے موجودہ کار ساز اداروں کے لیے مراعات کا خواہشمند ہے۔
یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ پاکستان میں گاڑیوں کے شعبے پر جاپان کی اجارہ داری ہے۔ ملک میں گاڑیاں تیار کرنے والے تینوں بڑے اداروں ٹویوٹا، ہونڈا اور سوزوکی کا تعلق جاپان سے ہے۔ کسی نئے کار ساز ادارے ، بالخصوص یورپی ممالک کے معروف اداروں کی پاکستانی مارکیٹ میں آمدسے ان جاپانی اداروں کے کاروبار براہ راست متاثر ہوں گے۔ یہی وجہ ہے کہ جاپان نئی آٹو پالیسی میں پہلے سے کام کرنے والے اداروں کے لیے بھی انہی رعایات و مراعات کا متقاضی ہے جو نئے کار ساز اداروں کو دیئے جانے کی توقع ہے۔میرا نہیں خیال کہ جاپان کی یہ خواہش حق بجانب ہے۔ اگر وہ ماضی اور حال کی طرح پاکستانی مارکیٹ میں کامیاب رہنا چاہتا ہے تو اسے چاہیے کہ معیار پر توجہ دے اور ان تینوں اداروں کو بین الاقوامی معیارات سے منسلک کرے۔ جاپان کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ صرف اپنے مفاد کے لیے پاکستان کی آٹو پالیسی میں ترمیم کے لیے اثر و رسوخ استعمال کرے۔
اس ضمن میں ہمارے حکومت کی اولین ترجیح پاکستان اور عوام ہونے چاہئیں۔ جیسا کہ میں نے پہلے ذکر کیا کہ مجوزہ آٹو پالیسی میں نئے کار ساز اداروں کو پاکستان میں گاڑیاں متعارف کروانے کے لیے راغب کرنا اور اس شعبے میں مسابقتی فضا قائم کرنا ہے جس سے فائدہ بہرحال عوام ہی کو ہوگا۔ اس وقت پاکستان میں سب سے سستی نئی گاڑی لینے کے لیے نکلیں تو سوزوکی مہران ملے گی جس کی قیمت سوا 6 لاکھ روپے ہے۔ اس قیمت میں تو ایک مختصر سیڈان گاڑی بھی خریدی جاسکتی ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان میں ایسی کوئی گاڑی دستیاب نہیں۔
حکومت اس وقت کسی بھی فریق کو ناراض نہیں کرنا چاہتی اور اس کی کوشش ہوگی کہ کوئی ایسا درمیانی راستہ نکالا جائے جس سے موجودہ کار ساز ادارے بھی خوش رہیں اور نئے اداروں کی دلچسپی بھی قائم و دائم رہے۔ اگر ہم مقامی تیار شدہ کرولا اور سِٹی کو پسند کرسکتے ہیں تو پھر رینالٹ یا لاڈا بھی یہاں چل ہی جائے گی۔ اداروں کے درمیان مقابلے کی فضا سے فائدہ بہرحال صارف کا ہی ہوتا ہے، اور یہی تو ہم چاہتے ہیں!