پاکستان میں سب ہی چوہدری ہیں …
“وہ صائمہ ہے نہ صائمہ ؟ وہ چوہدری اشرف کی بہن یار … وہ گھر سے بھاگ گئی ہے.”
میرا دوست سرگوشی سے بولا..
رات گیارہ بجے دروازہ کھڑکا تو میں چونک سا گیا. یہ 90 کی دہائی کی بات ہے. میری عمر کوئی 10 برس کے قریب ہو گی اور ہم کچھ عرصہ قبل خانیوال کے نزدیک ایک گاؤں میں والد صاحب کی ٹرانسفر کی غرض سے شفٹ ہوۓ تھے . چھوٹا سا گاؤں تھا اور سادہ زمانے. نہ موبائل ہوتے تھے، نہ کمپیوٹر اور نہ لیپ ٹاپ..نہ ہی فیس بک تھی جو ساری رات آپکو مصروف رکھے. TV شازونازر کسی کے پاس تھا، اور چینل بھی گنتی کے دو آتے تھے…PTV اور STN . یہی وجہہ تھی کہ نو بجتے ہی گاؤں میں سناٹا چھا جاتا تھا . اچھے وقتوں کا ذکر ہے … وارداتیں بھی کم کم تھیں. زیادہ سے زیادہ کسی کے باغ سے امرود کھا لئے یا کسی کی مرغی کے انڈے چرا لئے …
تبھی آدھی رات کو شور ہوا توسب گلی میں نکل آۓ اور چھوٹے چھوٹے جتھے بنا کہ کھڑے اپنے اپنے تبصرے کرنے لگے. کوئی چوہدری کے گھر کے ماحول کو کوسنے لگا اور کوئی نئی نسل کی آزادی پر تقریر کرنے لگا .. اسی شور میں گلی کی ایک طرف سے چوہدری اشرف اپنے چند بدمعاشوں کے ساتھ داخل ہوا.ساری گلی کو جیسے سانپ سونگھ گیا ہو. سٹریٹ لائیٹ کی ہلکی ہلکی روشنی میں چوہدری کا چہرہ سرخ نظر آ رہا تھا .. بپھرے ہوۓ سانڈ کی طرح وہ لوگوں کو دھکیلتا چلا …. تھوڑا غمزدہ ، تھوڑا شرمندہ، اور بہت غصیلا. اس کے ہاتھ میں ٹارچ تھی جسے وہ لوگوں کے چہروں پہ مار کے پہچان کرنے کی کوشش کر رہا تھا..
اب یہ کوئی عام ٹارچ نہیں تھی..یہ ٹارچ چوہدری پشاور سے بڑے تردّد کے بعد ڈھونڈ کے لایا تھا. کہتے ہیں اس کی روشنی میلوں دور تک جاتی تھی…اور جہاں پڑتی تھی وہاں وہاں دن چڑھ جاتا تھا. چندھیا دینے والی یہ روشنی پورے علاقے میں مشہور تھی. اس ٹارچ کے کارناموں کے قصّے کسی جاسوسی ناول سے کم نہیں تھے.. قصّہ مشہور تھا کہ جنگ عظیم دوم میں ہٹلر کو شکست دینا ناممکن تھا…پھر اس ٹارچ کی روشنی اس کی آنکھوں میں پڑی . یہ روشنی اسقدر تیز تھی کے ہٹلر کو سچائی نظر آنے لگی، اور اس نے دلبرداشتہ ہو کہ خودکشی کر لی. کچھ تو یہ تک کہتے ہیں کہ اسی کی روشنی ان پانچ Hunter جہازوں پہ ، جو 1965 میں پاکستان پہ حملہ کرنے آۓ تھے، اچانک پڑ گئی تھی .. ان جہازوں کے پائلٹ نے گھبرا کے شعر پڑھا “اے طائر لاہوتی ، اس رزق سے موت اچھی” اور لائن بنا کے بھاگنے لگے…وہ تو بھلا ہو M.M.Alam کا کہ انہوں نے ان پائلٹس کو ڈائریکٹ منزل پہ پہنچا دیا.
میں معزرت چاہتا ہوں، اس ٹارچ کو یاد کر کے میں بہک سا گیا تھا… میری تمہید کا مقصد یہ ہے کہ وہ دن اور آج کا دن، جب کبھی مجھے کوئی ہائی بیم(High Beam) پہ جاتا ہوا نظر آتا ہے ، تو مجھے چوھدری اشرف یاد آ جاتا ہے. جب جب کوئی شہر میں یا موٹروے پہ HID کے ڈپر(Dipper) مارتا ہے تو مجھے لگتا ہے کہ جیسے اس کی بہن گھر سے بھاگ گئی ہے اور وہ تیز سے تیز روشنی کی مدد سے جلد از جلد اپنی بہن کا، اور اپنی کھوئی ہوئی عزت کا پتا چلانا چاہتا ہے. ورنہ اتنی بےچینی کی کوئی چھوٹی وجھہ تو نہی ہو سکتی، ہے نا؟…اتنہ اضطراب تو عزت لٹتے وقت ہی آتا ہے…ورنہ پاک سر زمین کے پاک باسی، کوئی بلاوجہہ تو کسی کو تنگ نہیں کرنے والا نا ؟
کاش ایسا ہی ہوتا .. کاش یہ کسی کو تنگ کرنے سے پہلے پاک سر زمین کا لحاظ کر لیں….یہ نہیں کر سکتے تو اپنے ماں باپ کی تربیت کا مان رکھ لیں…اور کچھ نہیں تو اپنی بہن کا خیال کر لیں جس کی عزت انہیں سب سے پیاری ہے لیکن انکے ہر ڈپر (Dipper) پہ آدھا شہر اسے گالیاں نکالتا ہے.
لیکن نہیں…ہماری عادت میں شامل ہے اذیت، تکلیف ، ناگواری … اور جب عادتیں پکّی ہو جاتی ہیں توسرشت کا حصہ بن جاتی ہیں. تنگ کرنا اور تنگ ہونا تو جیسا کہ ہمارا پسندیدہ ٹائم-پاس بن گیا ہو .
ایسے ہی کچھ لوگ ہیں جنھیں سڑک کے عین بیچ میں 20 کی سپیڈ پے گاڑی چلانے کا شوق ہوتا ہے. ان کے پیچھے ٹریفک کا ہجوم اکٹھا ہو گیا ہوتا ہے، لیکن یہ زمان و جہاں سے عاری اپنے موبائل پہ کسی محترمہ کو راضی کرنے میں مصروف ہوتے ہیں. آپ اگر ہارن دے کے ان سے آگے نکل جائیں ، تو بجاۓ معزرت کے الٹا آپ کو گھورتے ہیں جیسے آپ کی ہی وجہ سے انکی زندگی اسقدر تنہا ہے. یہ پندرہ لاکھ کی گاڑی خرید لیتے ہیں لیکن 2 سو روپے کی handsfree خریدتے ہوے جان نکلتی ہے ان کی.
ان عاشق مزاجوں سے فراغت ملے تو آگے آپ کو وہ خود ساختہ VIP مل جایں گے جن پہ قانون کا اطلاق نہیں ہوتا. یہ جب چاہیں گے دھیمے دھیمے آپکی لین میں داخل ہونا شروع ہوں گے، اس حد تک کہ آپ اپنی گاڑی بچانے کی خاطر رک جائیں اور انہیں گزرنے کا موقع دے دیں. لائن چاہے جتنی لمبی کیوں نہ ہو، ان کو اس سے کوئی سروکار نہیں. یہ موڑ کے قریب پہنچ کے آپ کو دبانا شروع کریں گے. آپ ضد میں اگر انہیں راستہ نہیں دیں گے تو آپ سے آگے یا پیچھے والی گاڑی کے ساتھ جا کے اپنی قسمت آزمائی کریں گے، لیکن لائن میں نہیں لگیں گے. اب کافی لوگوں کو ان کی اس چال کا اندازہ ہو گیا ہے، اس لئے انہیں اکثر لوگ راستہ نہیں دیتے، اور یہ ڈھیٹوں کی مانند کوشش کرتے رہتے ہیں. جنگل کا گدھا تو آپ نے دیکھا ہے، اگراس کے مساوی ٹریفک کا گدھا دیکھنا ہو تو یہ آپکو اکثر سگنل پہ دوسری لین میں گھسنے کی کوشش کرتا نظر آۓ گا …
پھر باری آتی ہے ‘بس 2 منٹ میں آیا’ والوں کی. یہ بہت ادب سے آپ کی گاڑی کے پیچھے گاڑی کھڑی کرنے کی اجازت مانگیں گے، اور یقین دلایں گے کہ دو منٹ کی بات ہے . ہم آپ کو بتانا چاہتے ہیں کہ یہ 2 منٹ بہت لمبے ہوتے ہیں..ان کی معصوم شکلوں، اورتمیزدار لہجے پہ نہ جا یئے، یہ 2 منٹ کا کہ کے گئے تو ایک گھنٹے سے پہلے نہیں آنے لگے. آپ کھڑے انتظار کرتے رہیں گے، انہیں کوئی پرواہ نہیں. جب آیں گے تو کوئی ساتویں کلاس کا بہانہ سنا دیں گے…اور آپ ان کا منہ تکتے رہ جاءیں گے.
موٹر سائیکل والوں کی تو شان ہی الگ ہے. جیسے VIP حضرات پر ملکی قوانین لاگو نہیں ہوتے،ایسے ہی موٹر سائیکل والوں پہ نیوٹن کےقوانین بھی لاگو نہیں ہوتے. یہ سڑک پے ململ کے دوپٹتے کی طرح لہراتے ہوے چلتے ہیں، اور کٹی پتنگ کی طرح بےقابو اور بے منزل ….جدھر ایک ٹائر جتنی جگہ ملی، ڈال لی، چاہے وہ راستہ کہیں اور ہی لے جائے. …عموماً انہی سے آپ کو سننے کو ملتا ہے “میں اتفاقاً اس علاقے میں آ گیا تھا ، سوچا آپ سے مل چلوں ” – ان میں سے جنہوں نہیں نئی نئی شیو کرنا شروع کی ہوتی ہے، وہ موٹر سائیکل پہ بیٹھتے ہی اپنے آپ کو ہریتک روشن سمجھنا شروع ہو جاتے ہیں .. انکے سر میں دھوم فلم کا میوزک گونجنا شروع ہوتا ہے اور وہ اپنے تخیلاتی دشمنوں کے درمیان سے zigzag کرتے گذرتے ہیں .انہی تخیلات میں انکے پیچھے بیٹھا دوست شکیل خوبصورت حسینہ شکیلہ بن جاتی ہے. اس حسین خیالوں کی فلم کا climax یا تو اس وقت ہوتا ہے جب اس حسینہ کی داڑھی انکی گردن پے چبھتی ہے، یا جب ہیرو اور ہیروئن دونوں سڑک کے کنارے اپنی اپنی ٹانگیں پکڑ کے رو رہے ہوتے ہیں.
ان سب کے باپ ہوتے ہیں پبلک ٹرانسپورٹ والے – رکشے، ویگن، چنگچی، گدھا گاڑی وغیرہ…آپ ان سے بحث کر ہی نہیں سکتے. ان کا مضبوط قسم کا بھائی چارہ ہوتا ہے..ایک لگا تو 20 اکٹھے ہو گئے. آپ جو مرضی کر لیں، ان سے جیت نہیں سکتے. جواب میں کہیں گے کہ “جانور بےزبان ہے جی” – اب اس logic کا کوئی کیا جواب دے؟ بس اپنا آپ بچا لیں، یہی کافی ہے.
پاکستان میں ٹریفک کے حالات دیکھ کہ یہ محسوس ہوتا ہے جیسے ہر کسی کو جلدی ہے….کہاں کی جلدی ہے یہ کسی کوخبر نہیں . نہ ہم نے گھر پہنچ کے دوسری نوکری پہ جانا ہے، نہ ہی کسی سوشل ورک کا حصہ بننا ہے. بس صوفے پہ گر جانا ہے اور TV لگا کے وہی دقیانوسی ٹاک شوز دیکھ دیکھ کے اپنا دل جلانا ہوتا ہے. ہم ایک 10 کلومیٹر کے سفر میں 20 آدمیوں کا حق ما رتے ہیں، 30 قانون توڑتے ہیں، 40 گالیاں نکا لتے ہیں اور 50 سنتے ہیں، اور پھرگھر آ کر کہتے ہیں کہ ‘زندگی میں سکون نہیں ہے’
بھائی کبھی حق مارنے سے بھی سکون ملا ہے؟ کسی کو اپنی HID سے اندھا کرنے کے بعد ہم کونسی نعمتوں کے حقدار ٹھہرے؟ کسی کی ماں بہن ایک کرنے کے بعد کیسا “الله کا کرم”؟
آئیے، اپنے گریبانوں میں جھانکتے ہیں… کہیں ہم نہ سمجھتے ہوۓ ان میں سے کوئی حرکت تو نہیں کر رہے؟ کیا ہم روز مرہ ڈرائیونگ کے دوران غیر دانستہ طور پہ کسی کا حق تو نہیں مار رہے..کسی کی بد دعا تو نہیں مل رہی ہمیں؟
کہیں تھوڑا شوخا ہونے کی خاطر ہم چوہدری اشرف تو نہیں بن رہے؟
اگر ہر شخص ذمہ داری سے کام لے تو کوئ بھی حادثہ نہ ہو. . بہت ہی عمدہ آرٹیکل ہے
well written
Also, our Traffic Law says a biker has to remain in MOST LEFT lane on the road. Even he has to turn right. I personally get challan for taking bike to right lane because I had to take a U-turn, but traffic officer was insisting “NO. YOUR LANE IS ON TOP LEFT”.
So if I am on left and then take right on signal then other 2-3 lanes of cars (or VIPs) would not be disturbed?
MOST IMPORTANT RULE IS “keep your lane” WHICH IS NOT FOLLOWED BY NEITHER CARS, NOR BIKES. AND IF TALK ABOUT PUBLIC TRANSPORT, THEY ARE ABOVE LAW. :-p
Rana Saheb,
Just one question. Do you have back view mirror on your bike???
If you don’t have,then shut up and get lost. 🙂
HID par aik alag mazmoon hona chahyay
Awesome article loved reading it keep it up the good work
پاکستان کہ ٹریفک کے حالات اور عوام کے ساتھ روڈ پر پیش آنے والے واقعات پر ایسا بلاگ شاید ہی نظر سے گزرا ہو(ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہماری انگریزی کی حالت پاکستان کی روڈوں جیسی ہے اس لیے کوئ انگریزی آرٹیکل نہ سمجھ
(آیا ہوتو. معزرت
…مختصر پر مزاح اور پراثر تہریر.. پاک وھیلز کی جانب سے ایک بہترین کوشش جس کو لازمی سراہنا چاہیئے…
اردو بلاگز کہ حوالے سے اگر کسی قسم کا تعاون درکار ہوتو بندہ حاظر ہے..
Kya zaberdast article likha hai, aur ein aaj kal ke haalat bayaan kerta. Maza aa gaya janab 🙂
Dear Mr. Altaf, i would like to ask that do you follow all those Traffic rules you mentioned in your article. i can bet that you have never followed all the rules, so why not to start from yourself. if everybody think like this then we will have discipline everywhere.
zabardast, HID marnay walon ko dekh k mere munh se bhi yehi nikalta hai k in ki bhains khuli reh gayi hai, jis ki in ko itni jaldi hai
Level good write-up well done :p
Bohat AallA
Behn to is post waly ke b bhag sakti. Afsos horha mujhy ye language use krty hue. Shame on ur language. Hala k HID se le ker baki sub baten thek hain apki
thumbs up
Boht umda